EN हिंदी
کیا ملا تم کو مرے عشق کا چرچا کر کے | شیح شیری
kya mila tumko mere ishq ka charcha kar ke

غزل

کیا ملا تم کو مرے عشق کا چرچا کر کے

جلیلؔ مانک پوری

;

کیا ملا تم کو مرے عشق کا چرچا کر کے
تم بھی رسوا ہوئے آخر مجھے رسوا کر کے

مجھ پہ تلوار کا احساں نہ ہوا خوب ہوا
مار ڈالا تری آنکھوں نے اشارا کر کے

نگہ شوق کو مانع نہیں پردہ کوئی
آپ جائیں گے کہاں آنکھ سے پردا کر کے

تم نے کی وعدہ خلافی تو کوئی بات نہیں
سبھی معشوق مکر جاتے ہیں وعدا کر کے

ہر مرض کے لیے خالق نے دوا پیدا کی
مجھ کو بیمار کیا تجھ کو مسیحا کر کے

اڑ گیا رنگ جو مہندی کا تو کیا غم ان کو
پھر جما لیں گے ابھی خون تمنا کر کے

شکر اس بندہ نوازی کا ادا کیا ہو جلیلؔ
مرے سرکار نے رکھا مجھے اپنا کر کے