EN हिंदी
کیا ملا ہم کو تیری یاری میں | شیح شیری
kya mila hum ko teri yari mein

غزل

کیا ملا ہم کو تیری یاری میں

انشاءؔ اللہ خاں

;

کیا ملا ہم کو تیری یاری میں
رہے اب تک امیدواری میں

ہاتھ گہرا لگا کوئے قاتل
زور لذت ہے زخم کاری میں

دل جو بے خود ہوا صبا لائی
کس کی بو نگہت بہاری میں

ٹک ادھر دیکھ تو بھلا اے چشم
فائدہ ایسی اشک باری میں

چٹ لگا دیتے ہیں مرے آنسو
سلک گوہر کے آب داری میں

روٹھ کر اس سے میں جو کل بھاگا
ناگہاں دل کی بے قراری میں

آ لیا اس نے دوڑ کر مجھ کو
تاک کے اوچھل ایک کیاری میں

یوں لگا کہنے بس دوانہ نہ بن
پاؤں رکھ اپنا ہوشیاری میں

کب تلک میں بھلا رہوں شب و روز
تیری ایسی مزاج داری میں

ہے سمایا ہوا جو لڑکا پن
آپ کی وضع پیاری پیاری میں

اپنی بکری کا منہ چڑاتے وقت
کیا خوش آتی ہے یہ تمہاری ''میں''

بندۂ بو تراب ہے انشاؔ
شک نہیں اس کی خاکساری میں