EN हिंदी
کیا میں کیا اعتبار میرا | شیح شیری
kya mein kya etibar mera

غزل

کیا میں کیا اعتبار میرا

قائم چاندپوری

;

کیا میں کیا اعتبار میرا
خواری بس افتخار میرا

ناصح بولے ہے یوں کہ گویا
دل پر ہے کچھ اختیار میرا

اے شاہ سوار اند کے جہد
زخمی ہے نپٹ شکار میرا

ٹک بچیو صبا کہ ہر قدم پر
اس کوچہ میں ہے غبار میرا

وہ کشتئ مے دے اب کے ساقی
جس میں کھیوا ہو پار میرا

صد بحر در آستیں ہے جو ابر
وہ جیب ہے یا کنار میرا

قائمؔ ہوں اگرچہ ہیچ لیکن
کیا کیا کچھ ہے اعتبار میرا