EN हिंदी
کیا کیا سپرد خاک ہوئے نامور تمام | شیح شیری
kya kya supurd-e-KHak hue namwar tamam

غزل

کیا کیا سپرد خاک ہوئے نامور تمام

عبدالرحمان خان واصفی بہرائچی

;

کیا کیا سپرد خاک ہوئے نامور تمام
اک روز سب کو کرنا ہے اپنا سفر تمام

میری نظر نے لوٹ لئے جلوہ ہائے حسن
حسرت سے دیکھتے ہی رہے دیدہ ور تمام

تم نے تو اپنا کہہ کے مجھے لوٹ ہی لیا
ماتم کناں ہے میرے لئے گھر کا گھر تمام

مانا کہ میرے لب نہ ہلے رعب حسن سے
روداد دل تو کہہ ہی گئی چشم تر تمام

اب دیدنی ہے آپ کے بیمار غم کا حال
مایوس آ رہے ہیں نظر چارہ گر تمام

راہ وفا میں حد سے ہم آگے گزر گئے
دو گام چل کے بیٹھ گئے راہبر تمام

چھوڑے ہیں ہم نے نقش محبت ہر اک جگہ
واقف ہمارے حال سے ہیں بام و در تمام