EN हिंदी
کیا کیا نواح چشم کی رعنائیاں گئیں | شیح شیری
kya kya nawah-e-chashm ki ranaiyan gain

غزل

کیا کیا نواح چشم کی رعنائیاں گئیں

اظہر عنایتی

;

کیا کیا نواح چشم کی رعنائیاں گئیں
موسم گیا گلاب گئے تتلیاں گئیں

جھوٹی سیاہیوں سے ہیں شجرے لکھے ہوئے
اب کے حسب نسب کی بھی سچائیاں گئیں

کس ذہن سے یہ سارے محاذوں پہ جنگ تھی
کیا فتح ہو گیا کہ صف آرائیاں گئیں

کرنے کو روشنی کے تعاقب کا تجربہ
کچھ دور میرے ساتھ بھی پرچھائیاں گئیں

آگے تو بے چراغ گھروں کا ہے سلسلہ
میرے یہاں سے جانے کہاں آندھیاں گئیں

اظہرؔ مری غزل کے سبب اب کے شہر میں
کتنی نئی پرانی شناسائیاں گئیں