کیا کیا نہ رنگ تیرے طلب گار لا چکے
مستوں کو جوش صوفیوں کو حال آ چکے
ہستی کو مثل نقش کف پا مٹا چکے
عاشق نقاب شاہد مقصود اٹھا چکے
کعبے سے دیر دیر سے کعبے کو جا چکے
کیا کیا نہ اس دوراہے میں ہم پھیر کھا چکے
گستاخ ہاتھ طوق کمر یار کے ہوئے
حد ادب سے پاؤں کو آگے بڑھا چکے
کنعاں سے شہر مصر میں یوسف کو لے گئے
بازار میں بھی حسن کو آخر دکھا چکے
پہنچے تڑپ تڑپ کے بھی جلاد تک نہ ہم
طاقت سے ہاتھ پاؤں زیادہ ہلا چکے
ہوتی ہے تن میں روح پیام اجل سے شاد
دن وعدۂ وصال کے نزدیک آ چکے
پیمانہ میری عمر کا لبریز ہو کہیں
ساقی مجھے بھی اب تو پیالہ پلا چکے
دیوانہ جانتے ہیں ترا ہوشیار انہیں
جامے کو جسم کے بھی جو پرزے اڑا چکے
بے وجہ ہر دم آئنہ پیش نظر نہیں
سمجھے ہم آپ آنکھوں میں اپنی سما چکے
اس دل ربا سے وصل ہوا دے کے جان کو
یوسف کو مول لے چکے قیمت چکا چکے
اٹھا نقاب چہرۂ زیبائے یار سے
دیوار درمیاں جو تھی ہم اس کو ڈھا چکے
زیر زمیں بھی تڑپیں گے اے آسمان حسن
بیتاب تیرے گور میں بھی چین پا چکے
آرائش جمال بلا کا نزول ہے
اندھیر کر دیا جو وہ مسی لگا چکے
دو ابرو اور دو لب جاں بخش یار کے
زندوں کو قتل کر چکے مردے جلا چکے
مجبور کر دیا ہے محبت نے یار کی
باہر ہم اختیار سے ہیں اپنے جا چکے
صدموں نے عشق حسن کے دم کر دیا فنا
آتشؔ سزا گناہ محبت کی پا چکے
غزل
کیا کیا نہ رنگ تیرے طلب گار لا چکے
حیدر علی آتش