EN हिंदी
کیا کیا نہ دوستی کے جنازے اٹھائے ہیں | شیح شیری
kya kya na dosti ke janaze uThae hain

غزل

کیا کیا نہ دوستی کے جنازے اٹھائے ہیں

خورشید احمد ملک

;

کیا کیا نہ دوستی کے جنازے اٹھائے ہیں
تھک ہار کر عدو کے علاقے میں آئے ہیں

آ دیکھ زندگی تری عزت کے واسطے
زخمی لبوں سے ہم نے تبسم لٹائے ہیں

کس سے کریں سوال کے آوا بھی چاہیے
ہم نے بھی چاک پر کئی کوزے بنائے ہیں

تیزاب چھڑکے جائیں گے روئے گلاب پر
سنتے ہیں گلستاں میں وہ تشریف لائے ہیں

ماضی کو حال کرنے کی یہ بھی ہے اک للک
آواز تو نے دی ہے تو ہم لوٹ آئے ہیں

ہم پر ہی روشنی کی امامت ہوئی تمام
ہم نے دئے ہواؤں کے گھر میں جلائے ہیں

صحرا میں زندگی کی علامت بھی ڈھونڈھنا
ہم بھی کئی سراغ وہاں چھوڑ آئے ہیں

کھینچی تھی تم نے حد وفا کی جہاں لکیر
ہم حسرتیں تمام وہاں چھوڑ آئے ہیں

یہ ہے کسی کے غم کی شریعت کا اہتمام
آنکھیں مری ضرور ہیں آنسو پرائے ہیں

تحفے میں تم نے بھیجے تھے بجھتے دئے تمام
اور ہم تمہارے واسطے خورشیدؔ لائے ہیں