کیا کیا گماں نہ تھے مجھے اپنی اڑان پر
بازو جو شل ہوئے تو گرا ہوں چٹان پر
خودداریوں سے کون یہ پوچھے کہ آج تک
کتنے عذاب ہم نے لئے اپنی جان پر
اب کے نہ جانے رت کو نظر کس کی کھا گئی
اک بار بھی پڑی نہ دھنک آسمان پر
کشتی میں سو گئے جو انہیں یہ خبر کہاں
کتنا ہے آج زور ہوا بادبان پر
خوش فہمیوں کے دور سے پہلے جو تھی کبھی
وہ برتری کہاں ہے یقیں کو گمان پر
اک بے کراں خلا ہے نگاہوں میں ہر طرف
یعنی زمین پر ہیں نہ ہم آسمان پر
خاورؔ بھی زندگی سے نبرد آزما ہوا
کیا شخص تھا جو کھیل گیا اپنی جان پر

غزل
کیا کیا گماں نہ تھے مجھے اپنی اڑان پر
رحمان خاور