کیا کوئی یاد ترے دل کو دکھاتی ہے ہوا
سرد سناٹے میں کیوں شور مچاتی ہے ہوا
یہ خبر دی ہے پرندوں نے چلو سنتے ہیں
جھیل کے پاس کوئی گیت سناتی ہے ہوا
باغ مرجھائے چمن رویا ہوئے دشت اداس
سب کو مایوس کہاں چھوڑ کے جاتی ہے ہوا
خوشبوؤں آؤ ٹھہر جاؤ ہمارے آنگن
پھر اشاروں میں بہاروں کو بلاتی ہے ہوا
جو گیا لوٹ کے آیا ہی نہیں سرحد سے
اب کسے دشت میں آواز لگاتی ہے ہوا
جھنڈ میں لوٹنے لگتے ہیں سنہرے پنچھی
سوکھتی شاخوں پہ جب پھول کھلاتی ہے ہوا
خیر مقدم کے لیے بند دریچے کھولو
ناز و انداز سے کس شان سے آتی ہے ہوا
غزل
کیا کوئی یاد ترے دل کو دکھاتی ہے ہوا
راشد انور راشد