کیا کوئی تصویر بن سکتی ہے صورت کے بغیر
پھر کسی سے کیوں ملے کوئی ضرورت کے بغیر
دشمنی تو چاہنے کی انتہا کا نام ہے
یہ کہانی بھی ادھوری ہے محبت کے بغیر
تیری یادیں ہو گئیں جیسے مقدس آیتیں
چین آتا ہی نہیں دل کو تلاوت کے بغیر
دھوپ کی ہر سانس گنتے شام تک جو آ گئے
چھاؤں میں وہ کیا جئیں جینے کی عادت کے بغیر
بچ گیا دامن اگر میرے لہو کے داغ سے
وہ مرا قاتل تو مر جائے گا شہرت کے بغیر
اس کی سرداری سے اب انکار کرنا چاہیے
روشنی دیتا نہیں سورج سیاست کے بغیر
حسن کی دوکان ہو کہ عشق کا بازار ہو
یاں کوئی سودا نہیں ہے دل کی دولت کے بغیر
شبنمی چہرہ چھپاؤں کیسے بچوں سے فہیمؔ
شام آتی ہی نہیں گھر میں طہارت کے بغیر

غزل
کیا کوئی تصویر بن سکتی ہے صورت کے بغیر
فہیم جوگاپوری