کیا کوئی درد دل کے مقابل نہیں رہا
یا ایک دل بھی درد کے قابل نہیں رہا
ان کے لہو کی دہر میں ارزانیاں نہ پوچھ
جن کا گواہ دامن قاتل نہیں رہا
اپنی تلاش ہے ہمیں آنکھوں کے شہر میں
آئینہ جب سے اپنے مقابل نہیں رہا
سرگرمی حیات ہے بے مقصد حیات
سب رہ نورد شوق ہیں محمل نہیں رہا
اس کا خیال آتا ہے اپنے خیال سے
اب وہ بھی اپنی یاد میں شامل نہیں رہا

غزل
کیا کوئی درد دل کے مقابل نہیں رہا
مغنی تبسم