EN हिंदी
کیا کسی کی طلب نہیں ہوتی | شیح شیری
kya kisi ki talab nahin hoti

غزل

کیا کسی کی طلب نہیں ہوتی

دنیش ٹھاکر

;

کیا کسی کی طلب نہیں ہوتی
شاعری بے سبب نہیں ہوتی

جانے کس دھن میں بھاگے جاتے ہیں
جستجو جی میں کب نہیں ہوتی

با ادب دشمنی کو کیا روئیں
دوستی با ادب نہیں ہوتی

چاند اس وقت بھی تو ہوتا ہے
جب کسی گھر میں شب نہیں ہوتی

ہم نے دنیا میں کیا نہیں دیکھا
حشر کی فکر اب نہیں ہوتی

میکدے میں بھی کچھ نہ کچھ تو ہے
بھیڑ یوں ہی غضب نہیں ہوتی

کون سچا ہے کون جھوٹا ہے
یہ جرح ہم سے اب نہیں ہوتی