کیا خبر تھی آتشیں آب و ہوا ہو جاؤں گا
خاک و خوں کا مستقل میں سلسلہ ہو جاؤں گا
ابتدا ہوں آپ اپنی انتہا ہو جاؤں گا
بارشوں کا قرب پا کر پھر ہرا ہو جاؤں گا
جھاڑیوں کی انگلیاں لپکیں گی گردن کی طرف
پہلی شب کے آخری پل کی دعا ہو جاؤں گا
آسماں کی سمت اٹھیں گے بگولے اور میں
رفتہ رفتہ اک مقام گمشدہ ہو جاؤں گا
چلچلاتی دھوپ میں اپنا سراپا دیکھ کر
رات کی تنہائیوں کا وسوسہ ہو جاؤں گا
کچھ نہ کچھ کھوتا چلا جاؤں گا اک اک موڑ پر
اور پھر میں ایک دن تیرا کہا ہو جاؤں گا
کھردرے اور کھوکھلے برگد کا بازو تھام کر
صبح سیمیں کا مآل طے شدہ ہو جاؤں گا
جب کوئی جھکنے لگے گا شام کی دہلیز پر
گنبد موہوم کا میں مبتنیٰ ہو جاؤں گا
پھڑپھڑاتے دیکھ کر تاروں میں کفتر کو نظامؔ
انگلیوں کی الجھنوں میں مبتلا ہو جاؤں گا

غزل
کیا خبر تھی آتشیں آب و ہوا ہو جاؤں گا
شین کاف نظام