EN हिंदी
کیا خبر جو نظر آتا ہے وہ منظر ہی نہ ہو | شیح شیری
kya KHabar jo nazar aata hai wo manzar hi na ho

غزل

کیا خبر جو نظر آتا ہے وہ منظر ہی نہ ہو

مرزا اطہر ضیا

;

کیا خبر جو نظر آتا ہے وہ منظر ہی نہ ہو
یہ سمندر کہیں سچ مچ میں سمندر ہی نہ ہو

جس کی امید پہ سر پھوڑ رہی ہے دنیا
کہیں اس آہنی دیوار میں وہ در ہی نہ ہو

جان کر پھول جسے دل سے لگائے ہوئے ہیں
غور سے دیکھ لیں چھو کر اسے پتھر ہی نہ ہو

در و دیوار سے یہ کیسے نظر آتے ہیں
جس کو ویرانہ سمجھ بیٹھے ہیں وہ گھر ہی نہ ہو

اس قدر ہم کو ڈرانا نہیں اچھا اطہرؔ
کیا پتہ ہم کو کسی چیز کا پھر ڈر ہی نہ ہو