کیا خبر جو نظر آتا ہے وہ منظر ہی نہ ہو
یہ سمندر کہیں سچ مچ میں سمندر ہی نہ ہو
جس کی امید پہ سر پھوڑ رہی ہے دنیا
کہیں اس آہنی دیوار میں وہ در ہی نہ ہو
جان کر پھول جسے دل سے لگائے ہوئے ہیں
غور سے دیکھ لیں چھو کر اسے پتھر ہی نہ ہو
در و دیوار سے یہ کیسے نظر آتے ہیں
جس کو ویرانہ سمجھ بیٹھے ہیں وہ گھر ہی نہ ہو
اس قدر ہم کو ڈرانا نہیں اچھا اطہرؔ
کیا پتہ ہم کو کسی چیز کا پھر ڈر ہی نہ ہو
غزل
کیا خبر جو نظر آتا ہے وہ منظر ہی نہ ہو
مرزا اطہر ضیا