کیا خبر ہجر کی شب کی بھی سحر ہوتی ہے
کس طرح دیکھیے یہ رات بسر ہوتی ہے
تیرے دیوانوں کی محفل میں ہے پہچان یہی
ریگ صحرا سے سوا خاک بسر ہوتی ہے
کام بگڑے ہوئے بن جاتے ہیں اکثر میرے
جب کبھی تیری عنایت کی نظر ہوتی ہے
کاٹتا ہوں شب فرقت اسی ارمان کے ساتھ
ڈوب جاتے ہیں ستارے تو سحر ہوتی ہے
زلف و زلف جو طول شب ہجراں بن جائے
چشم وہ چشم جو پیکان جگر ہوتی ہے
چاندنی ماند پڑے ایسی صباحت ان کی
شکل دیکھے تو کوئی رشک قمر ہوتی ہے
رسم الفت میں یہی ہوتا ہے اکثر اے نورؔ
ڈوب جاتے ہیں سفینے تو خبر ہوتی ہے
غزل
کیا خبر ہجر کی شب کی بھی سحر ہوتی ہے
نور محمد نور