کیا خبر ہے نہ ملے پھر کوئی شیشہ ایسا
خود کو چھوتے ہوئے ڈرتا ہوں شکستہ ایسا
سبزۂ لمس پہ بڑھتا ہوا لمحہ لمحہ
سست رو شعلۂ طوفان تمنا ایسا
اب نہ دستک میں صدا ہے نہ ہے زنجیر میں شور
بند اب تک نہ ہوا تھا در توبہ ایسا
سانس کے ساتھ لپکتا ہے تہہ موج خیال
کس نے بویا تھا مرے جسم میں شعلہ ایسا
سر سے ٹپکا جو شجر کے تو زمیں بھی نہ ملی
اب کے اک برگ جواں شاخ سے ٹوٹا ایسا
عکس کو نقش تو جذبے کو کروں پارۂ رنگ
کل کے آئینے سے جھانکے گا نہ چہرہ ایسا
اب تو زنجیر تعلق ہے نہ وہ رشتۂ درد
میں وہ خوش بخت کہ پایا ہے زمانہ ایسا
غزل
کیا خبر ہے نہ ملے پھر کوئی شیشہ ایسا
نشتر خانقاہی