کیا خاک کہوں مطلب دل دار کے آگے
سو اور سنائے گا وہ اغیار کے آگے
بولا تھا جو آغاز محبت میں بڑا بول
آیا وہی آخر دل بیمار کے آگے
روکا ہی کیا ضبط محبت سر محفل
سر جھک ہی گیا اس بت عیار کے آگے
پیدا نہیں دنیا میں دوائے مرض عشق
کیا لوگ نہ ہوتے تھے اس آزار کے آگے
فریادئ بیداد جفا جان کے مجھ کو
محشر میں وہ چلتے ہوئے للکار کے آگے
مرتا ہے کسی اور پہ اب غیر سنا ہے
بولوں گا کبھی جھوٹ نہ سرکار کے آگے
آ جائے نسیمؔ اس کو ترحم تو عجب کیا
چل لے تو چلیں تجھ کو ترے یار کے آگے

غزل
کیا خاک کہوں مطلب دل دار کے آگے
نسیم بھرتپوری