کیا کروں رنج گوارا نہ خوشی راس مجھے
جینے دے گی نہ مری شدت احساس مجھے
اس طرح بھی تری دوری میں کٹے ہیں کچھ دن
ہنس پڑا ہوں تو ہوا جرم کا احساس مجھے
ہم نے اک دوسرے کو پرسۂ فرقت نہ دیا
میری خاطر تھی تجھے اور ترا پاس مجھے
ایک ٹھہرا ہوا دریا ہے مری آنکھوں میں
کن سرابوں میں ڈبوتی ہے تری پیاس مجھے
جیسے پہلوئے طرب میں کوئی نشتر رکھ دے
آج تک یاد ہے تیری نگہ یاس مجھے
ریزہ ریزہ ہوا جاتا ہے مرا سنگ وجود
یوں صدا دے نہ پس پردۂ انفاس مجھے
شاخ سے برگ چکیدہ کا تقاضا جیسے
کچھ اس طرح ابھی تک ہے تری آس مجھے
روح کے دشت میں اک ہو کا سماں ہے اے شاذؔ
دے گیا کون بھرے شہر میں بن باس مجھے
غزل
کیا کروں رنج گوارا نہ خوشی راس مجھے
شاذ تمکنت