کیا کریں تدبیر وحشت اے دل دیوانہ ہم
اس سے مل بھی تو نہیں سکتے ہیں آزادانہ ہم
ہم رہیں دوری کش مئے غیر مست ارغواں
آج ٹکرا دیں گے ہر پیمانے سے پیمانہ ہم
ڈھونڈھ لے گا آپ منزل کاروان زندگی
غیر کا احسان کیوں لیں ہمت مردانہ ہم
لب رہے خاموش لیکن ساری باتیں ہو گئیں
اک نظر میں کہہ گئے افسانہ در افسانہ ہم
جس طرح انساں کو لے ڈوبے ہیں شیخ و برہمن
لاؤ ساغر میں ڈبو دیں مسجد و بت خانہ ہم
جس کو دنیا میں کسی نے منہ لگایا ہی نہیں
محفل رنداں میں ہیں ٹوٹا ہوا پیمانہ ہم
کاش کوئی دیکھ ہی لیتا نگاہ لطف سے
آئے تھے محفل میں جامیؔ کتنے مشتاقانہ ہم

غزل
کیا کریں تدبیر وحشت اے دل دیوانہ ہم
جامی ردولوی