EN हिंदी
کیا کر رہے ہو ظلم کرو راہ راہ کا | شیح شیری
kya kar rahe ho zulm karo rah rah ka

غزل

کیا کر رہے ہو ظلم کرو راہ راہ کا

آغا شاعر قزلباش

;

کیا کر رہے ہو ظلم کرو راہ راہ کا
کہتے ہیں بے جگر ہے بڑا تیر آہ کا

یوں رونگٹے لرزتے ہیں پوچھیں گے روز حشر
کیوں ایک دن بھی خوف نہ آیا گناہ کا

حالت پہ میری ان کے بھی آنسو نکل پڑے
دیکھا گیا نہ یاس میں عالم نگاہ کا

کسریٰ کا طاق کعبے کے بت منہ کے بل گرے
شہرہ سنا جو اشہد ان لا الہ کا

شاعرؔ عجیب رنگ سے گزری ہے اپنی عمر
دنیا میں نام بھی نہ سنا خیر خواہ کا