کیا کر رہے ہو ظلم کرو راہ راہ کا
کہتے ہیں بے جگر ہے بڑا تیر آہ کا
یوں رونگٹے لرزتے ہیں پوچھیں گے روز حشر
کیوں ایک دن بھی خوف نہ آیا گناہ کا
حالت پہ میری ان کے بھی آنسو نکل پڑے
دیکھا گیا نہ یاس میں عالم نگاہ کا
کسریٰ کا طاق کعبے کے بت منہ کے بل گرے
شہرہ سنا جو اشہد ان لا الہ کا
شاعرؔ عجیب رنگ سے گزری ہے اپنی عمر
دنیا میں نام بھی نہ سنا خیر خواہ کا
غزل
کیا کر رہے ہو ظلم کرو راہ راہ کا
آغا شاعر قزلباش