EN हिंदी
کیا کہوں کہ کیا ہوں میں | شیح شیری
kya kahun ki kya hun main

غزل

کیا کہوں کہ کیا ہوں میں

ولی اللہ ولی

;

کیا کہوں کہ کیا ہوں میں
سنگ بے صدا ہوں میں

درد لا دوا ہوں میں
آہ نارسا ہوں میں

درد کی دوا ہوں میں
پیار کی صدا ہوں میں

جس کی ابتدا ہو تم
اس کی انتہا ہوں میں

خود ہی راہ رو بھی ہوں
خود ہی رہنما ہوں میں

سوچنا فضول ہے
پھر بھی سوچتا ہوں میں

ان پہ ہے نظر میری
خود کو دیکھتا ہوں میں

جانے کیا ہوا مجھ کو
خود سے بھی خفا ہوں میں

آؤ اے ولیؔ دیکھو
کیسا آئینہ ہوں میں