EN हिंदी
کیا کہوں کب دھواں نہیں اٹھتا | شیح شیری
kya kahun kab dhuan nahin uThta

غزل

کیا کہوں کب دھواں نہیں اٹھتا

شاہ حسین نہری

;

کیا کہوں کب دھواں نہیں اٹھتا
مجھ سے اپنا زیاں نہیں اٹھتا

بھینچتے رہتے ہیں در و دیوار
اور دل سے مکاں نہیں اٹھتا

آبرو تھام تھام لیتی ہے
ہاتھ ورنہ کہاں نہیں اٹھتا

اٹھتی جاتی ہیں ساری امیدیں
خدشۂ جسم و جاں نہیں اٹھتا

ہاتھ اٹھتے رہے ہیں مجھ پر شاہؔ
مجھ سے بار زباں نہیں اٹھتا