کیا کہوں کب دھواں نہیں اٹھتا
مجھ سے اپنا زیاں نہیں اٹھتا
بھینچتے رہتے ہیں در و دیوار
اور دل سے مکاں نہیں اٹھتا
آبرو تھام تھام لیتی ہے
ہاتھ ورنہ کہاں نہیں اٹھتا
اٹھتی جاتی ہیں ساری امیدیں
خدشۂ جسم و جاں نہیں اٹھتا
ہاتھ اٹھتے رہے ہیں مجھ پر شاہؔ
مجھ سے بار زباں نہیں اٹھتا

غزل
کیا کہوں کب دھواں نہیں اٹھتا
شاہ حسین نہری