EN हिंदी
کیا کہوں حسرت دیدار نے کیا کیا کھینچا | شیح شیری
kya kahun hasrat-e-didar ne kya kya khincha

غزل

کیا کہوں حسرت دیدار نے کیا کیا کھینچا

مضطر خیرآبادی

;

کیا کہوں حسرت دیدار نے کیا کیا کھینچا
کبھی دامن ترا کھینچا کبھی پردا کھینچا

نقش امید مرے شوق نے الٹا کھینچا
مجھ سے کھنچتے ہی گئے وہ انہیں جتنا کھینچا

وہ ترے دل میں ہماری بھی جگہ کر دے گا
جس نے اس آنکھ کے تل میں ترا نقشا کھینچا

خواب اس دل پہ تری آنکھ نے ڈورے ڈالے
خوب کاجل نے تری آنکھ میں ڈورا کھینچا

تان لیں دونوں بھویں ڈال کے نظریں اس نے
تیر چھوڑے تو کمانوں نے بھی چلا کھینچا

ضبط فریاد سے مضطرؔ مری سانسیں الجھیں
رسم فریاد نے اوپر کو کلیجا کھینچا