کیا کہیے کیا رکھیں ہیں ہم تجھ سے یار خواہش
یک جان و صد تمنا، یک دل ہزار خواہش
لے ہاتھ میں قفس ٹک صیاد چل چمن تک
مدت سے ہے ہمیں بھی سیر بہار خواہش
نے کچھ گنہ ہے دل کا نے جرم چشم اس میں
رکھتی ہے ہم کو اتنا بے اختیار خواہش
حالانکہ عمر ساری مایوس گزری تس پر
کیا کیا رکھیں ہیں اس کے امیدوار خواہش
غیرت سے دوستی کی کس کس سے ہو جے دشمن
رکھتا ہے یاری ہی کی سارا دیار خواہش
ہم مہر و رز کیوں کر خالی ہوں آرزو سے
شیوہ یہی تمنا فن و شعار خواہش
اٹھتی ہے موج ہر یک آغوش ہی کی صورت
دریا کو ہے یہ کس کا بوس و کنار خواہش
صد رنگ جلوہ گر ہے ہر جادہ غیرت گل
عاشق کی ایک پاوے کیوں کر قرار خواہش
یک بار بر نہ آئے اس سے امید دل کی
اظہار کرتے کب تک یوں بار بار خواہش
کرتے ہیں سب تمنا پر میرؔ جی نہ اتنی
رکھے گی مار تم کو پایان کار خواہش
غزل
کیا کہیے کیا رکھیں ہیں ہم تجھ سے یار خواہش
میر تقی میر