EN हिंदी
کیا کہیں ملتا ہے کیا خوابوں میں | شیح شیری
kya kahin milta hai kya KHwabon mein

غزل

کیا کہیں ملتا ہے کیا خوابوں میں

عبدالعزیز فطرت

;

کیا کہیں ملتا ہے کیا خوابوں میں
دل گھرا رہتا ہے مہتابوں میں

ہر تمنائے سکون ساحل
الجھی الجھی رہی سیلابوں میں

دل انساں کی سیاہی توبہ
ظلمتیں بس گئیں مہتابوں میں

آپ کے فیض سے تنویریں ہیں
کعبۂ عشق کی محرابوں میں

اپنا ہر خواب تھا اک موج سرور
یوں ہوئی عمر بسر خوابوں میں

حسن قسمت سے ہمیشہ فطرتؔ
بخت بیدار رہا خوابوں میں