کیا کہیں ملتا ہے کیا خوابوں میں
دل گھرا رہتا ہے مہتابوں میں
ہر تمنائے سکون ساحل
الجھی الجھی رہی سیلابوں میں
دل انساں کی سیاہی توبہ
ظلمتیں بس گئیں مہتابوں میں
آپ کے فیض سے تنویریں ہیں
کعبۂ عشق کی محرابوں میں
اپنا ہر خواب تھا اک موج سرور
یوں ہوئی عمر بسر خوابوں میں
حسن قسمت سے ہمیشہ فطرتؔ
بخت بیدار رہا خوابوں میں
غزل
کیا کہیں ملتا ہے کیا خوابوں میں
عبدالعزیز فطرت