کیا کہیں زندگی کا کیا کیجے
اک لب دم خوشی کا کیا کیجے
جان دیوار ہی سے بچتی ہے
ورنہ شوریدگی کا کیا کیجے
دور کیا پاس تیرے رہ کر بھی
کس سے کہیے کمی کا کیا کیجے
ہوش آخر کو آ ہی جانا تھا
لیکن اب بے خودی کا کیا کیجے
کس قدر خود کو دیجئے دھوکا
اس قدر بے حسی کا کیا کیجے

غزل
کیا کہیں زندگی کا کیا کیجے
خالد محمود ذکی