EN हिंदी
کیا کہیں پوچھ مت کہیں ہیں ہم | شیح شیری
kya kahen puchh mat kahin hain hum

غزل

کیا کہیں پوچھ مت کہیں ہیں ہم

میر حسن

;

کیا کہیں پوچھ مت کہیں ہیں ہم
تو جہاں ہے غرض وہیں ہیں ہم

کیا کہیں اپنا ہم نشیب و فراز
آسماں گاہ گہ زمیں ہیں ہم

وہم میں اپنے تھے بہت کچھ لیک
خوب دیکھا تو کچھ نہیں ہیں ہم

ہم کو ناکارہ جان مت لے لے
تیرے ہی نام کے نگیں ہیں ہم

میں جو پوچھا کہاں ہو تم تو کہا
تجھ کو کیا کام ہے کہیں ہیں ہم

اپنے عقدے کسی طرح نہ کھلے
کس دل آزار کی جبیں ہیں ہم

ہم نہ تیر شہاب ہیں نہ سموم
نالہ و آہ آتشیں ہیں ہم

بود و نابود میں غرض اپنے
جس طرح سے کہ ہم نشیں ہیں ہم

کیا کہیں پوچھ مت بقول ضیاؔ
ایک دم ہیں سو واپسیں ہیں ہم