کیا کہیں کیا حسن کا عالم رہا
وہ رہے اور آئنہ مدھم رہا
زندگی سے زندگی روٹھی رہی
آدمی سے آدمی برہم رہا
رہ گئی ہیں اب وہاں پرچھائیاں
اک زمانے میں جہاں آدم رہا
پاس رہ کر بھی رہے ہم دور دور
اس طرح اس کا مرا سنگم رہا
تو مرے افکار میں ہر پل رہی
میں ترے احساس میں ہر دم رہا
جی رہے تھے ہم تو دنیا تھی خفا
مر گئے تو دیر تک ماتم رہا

غزل
کیا کہیں کیا حسن کا عالم رہا
بقا بلوچ