EN हिंदी
کیا کہیں ہم تھے کہ یا دیدۂ تر بیٹھ گئے | شیح شیری
kya kahen hum the ki ya dida-e-tar baiTh gae

غزل

کیا کہیں ہم تھے کہ یا دیدۂ تر بیٹھ گئے

زین العابدین خاں عارف

;

کیا کہیں ہم تھے کہ یا دیدۂ تر بیٹھ گئے
قلزم اشک میں جوں لخت جگر بیٹھ گئے

ناتواں ہم یوں تری بزم سے نکلے کیونکر
کسے معلوم ہے ہم آ کے کدھر بیٹھ گئے

آپ کو خون کے آنسو ہی رلانا ہوگا
حال دل کہنے کو ہم اپنا اگر بیٹھ گئے

کس کو اک دم کا بھروسہ ہے کہ مانند حباب
بحر ہستی میں ادھر آئے ادھر بیٹھ گئے

دور سمجھا ہے رقیبوں کو یہاں سے عارفؔ
یار کے پاس جو بے خوف و خطر بیٹھ گئے