کیا جانیے کیا ہے حد ادراک سے آگے
بس خاک ہے اس تیری مری خاک سے آگے
ہے شور فغاں خامشیٔ مرگ کے پیچھے
اک تیز ہوا ہے خس و خاشاک سے آگے
ہم دیکھتے ہیں آنکھ میں سہمے ہوئے آنسو
اک چپ ہے کہیں خندۂ بے باک سے آگے
اک رنگ سا ہے رنگ تمنا سے مماثل
اک ابر سا ہے دیدۂ نم ناک سے آگے
میں اپنے کسی خواب کی منہ زور ہوا میں
اکثر ہی نکل جاتا ہوں افلاک سے آگے
کیا شور کریں گریۂ عشاق سے بڑھ کر
کیا زور کریں پیرہن چاک سے آگے
غزل
کیا جانیے کیا ہے حد ادراک سے آگے
ابرار احمد