کیا ہوئے عاشق اس شکر لب کے
طعنے سہنے پڑے ہمیں سب کے
بھولنا مت بتوں کی یاری پر
ہیں یہ بدکیش اپنے مطلب کے
قیس و فرہاد چل بسے افسوس
تھے وہ کمبخت اپنے مشرب کے
شیخیاں شیخ جی کی دیں گے دکھا
مل گئے وہ اگر کہیں اب کے
یاد رکھنا کبھی نہ بچئے گا
مل گئے آپ وقت گر شب کے
اس میں خوش ہوویں آپ یا ناخوش
یار تو ہیں سنا اسی ڈھب کے
یار بن عیشؔ مےکشی توبہ
ہے یہ اپنے خلاف مذہب کے
غزل
کیا ہوئے عاشق اس شکر لب کے
عیش دہلوی