EN हिंदी
کیا ہوا اس نے جو عاشق سے جفاکاری کی | شیح شیری
kya hua usne jo aashiq se jafakari ki

غزل

کیا ہوا اس نے جو عاشق سے جفاکاری کی

وسیم خیر آبادی

;

کیا ہوا اس نے جو عاشق سے جفاکاری کی
روح نے جبکہ نہ قالب سے وفاداری کی

لمبی داڑھی بھی کسی ہاتھ سے رسوا ہوگی
حضرت شیخ سزا پائیں گے مکاری کی

تو وہ ظالم ہے گیا ناز سے اترا کے جو واں
داور حشر نے بھی تیری طرف داری کی

داغ روشن مرے سینہ پہ جو دیکھے اس نے
مہر پر نور پہ بھپتی کہی چنگاری کی

غم مجنوں میں سیہ پوش بنی ہے لیلیٰ
اے جنوں یہ شب ہجراں کی نہیں تاریکی

سن لیا نام وفا کا ہے کسی عاشق سے
جان اب کاہے کو چھوڑیں گے وفاداری کی

ایک توبہ کے سوا کچھ نہ کیا ہم نے وسیمؔ
عفو کے ہاتھ ہے اب شرم گنہ گاری کی