کیا ہو گیا ہے گیسوئے خم دار کو ترے
آزاد کر رہے ہیں گرفتار کو ترے
اب تو ہے مدتوں سے شب و روز روبرو
کتنے ہی دن گزر گئے دیدار کو ترے
کل رات چوب دار سمیت آ کے لے گیا
اک غول طرحدار سر دار کو ترے
اب اتنی کند ہو گئی دھار اے یقیں تری
اب روکتا نہیں ہے کوئی وار کو ترے
اب رشتۂ مریض و مسیحا ہوا ہے خوار
سب پیشہ ور سمجھتے ہیں بیمار کو ترے
باہر نکل کے آ در و دیوار ذات سے
لے جائے گی ہوا در و دیوار کو ترے
اے رنگ اس میں سود ہے تیرا زیاں نہیں
خوشبو اڑا کے لے گئی زنگار کو ترے
غزل
کیا ہو گیا ہے گیسوئے خم دار کو ترے
جون ایلیا