EN हिंदी
کیا ہو گیا ہے گیسوئے خم دار کو ترے | شیح شیری
kya ho gaya hai gesu-e-KHamdar ko tere

غزل

کیا ہو گیا ہے گیسوئے خم دار کو ترے

جون ایلیا

;

کیا ہو گیا ہے گیسوئے خم دار کو ترے
آزاد کر رہے ہیں گرفتار کو ترے

اب تو ہے مدتوں سے شب و روز روبرو
کتنے ہی دن گزر گئے دیدار کو ترے

کل رات چوب دار سمیت آ کے لے گیا
اک غول طرحدار سر دار کو ترے

اب اتنی کند ہو گئی دھار اے یقیں تری
اب روکتا نہیں ہے کوئی وار کو ترے

اب رشتۂ مریض و مسیحا ہوا ہے خوار
سب پیشہ ور سمجھتے ہیں بیمار کو ترے

باہر نکل کے آ در و دیوار ذات سے
لے جائے گی ہوا در و دیوار کو ترے

اے رنگ اس میں سود ہے تیرا زیاں نہیں
خوشبو اڑا کے لے گئی زنگار کو ترے