EN हिंदी
کیا حقیقت میں نہیں تھے یہ سزا وار ترے | شیح شیری
kya haqiqat mein nahin the ye saza-war tere

غزل

کیا حقیقت میں نہیں تھے یہ سزا وار ترے

کوثر نیازی

;

کیا حقیقت میں نہیں تھے یہ سزا وار ترے
کیوں شفا یاب نہ ہو پائے یہ بیمار ترے

ابر کیا کیا نہ عنایات کے برسے لیکن
جاں بلب آج بھی ہیں تشنۂ دیدار ترے

ہے ستائش کی تمنا نہ صلے کی پروا
کس قدر سادہ طبیعت ہیں پرستار ترے

تجھ سے کرتے ہیں تقاضا تری تصویروں کا
ہم حقیقت میں اگرچہ ہیں طلب گار ترے

مر گیا کیا ترا شاعر ترا کوثرؔ نیازی
سونے سونے سے ہیں کیوں کوچہ و بازار ترے