کیا گل کھلائے دیکھیے تپتی ہوئی ہوا
مسموم ہو گئی ہے مہکتی ہوئی ہوا
یہ چیتھڑوں میں پھول یہ سرگرم کار لوگ
یہ دوپہر کی دھوپ یہ جلتی ہوئی ہوا
زندہ وہی رہے گا جسے ہو شعور زیست
کہتی ہے روز رنگ بدلتی ہوئی ہوا
بادل گھرے تو اور بھی شعلہ فشاں ہوئی
پھولوں کی پتیوں کو جھلستی ہوئی ہوا
طوفان گرد و باد سے سنولا نہ جائیں لوگ
پھر رک گئی ہے شہر میں چلتی ہوئی ہوا
کمھلا نہ جائے گلشن شام و سحر حزیںؔ
مدت سے چل رہی ہے سلگتی ہوئی ہوا
غزل
کیا گل کھلائے دیکھیے تپتی ہوئی ہوا
حزیں لدھیانوی