کیا فقط طالب دیدار تھا موسیٰ تیرا
وہی شیدا تھا ترا میں نہیں شیدا تیرا
دیدۂ شوق سے بے وجہ ہے پردا تیرا
کس نے دیکھا نہیں ان آنکھوں سے جلوا تیرا
خود نزاکت پہ نہ کیوں بوجھ ہو پردا تیرا
کیا کسی آنکھ نے دیکھا نہیں جلوا تیرا
مٹ گئی شورش طوفان حوادث اے موج
اب وہی تو وہی بہتا ہوا دریا تیرا
چین سے شہر خموشاں میں ہر اک سوتا ہے
آسرا سب کو ہے اے وعدۂ فردا تیرا
منزلت ایک کی بھی ہوگی نہ ویسی بہ خدا
حشر میں آئے گا جس شان سے رسوا تیرا
زندگی کہتی ہے ارماں کوئی اب ہے نہ امید
کب تلک ساتھ کروں میں تن تنہا تیرا
بے سبب میری خموشی نہیں اے شاہد حسن
دامن صبر سے ڈھنکتا نہیں پردا تیرا
یوں حبابوں کا نہ دل توڑ خدارا اے موج
انہیں قطروں کے تو ملنے سے ہے دریا تیرا
وہی رنگت وہی خوشبو وہی نازک بدنی
پھول نے نقش اتارا ہے سراپا تیرا
تجھ سے ملنے کا جو ہے شوق تو در در نہ پھرے
پانو توڑے ہوئے بیٹھا رہے شیدا تیرا
اے گل آتی ہے خزاں باغ میں ٹھہرا نہ مجھے
دیکھوں ان آنکھوں سے اترا ہوا چہرا تیرا
کاش زاہد رخ روشن سے اٹھا لیں وہ نقاب
پھر تو کچھ رند کی رندی ہے نہ تقویٰ تیرا
اپنے مے خانے سے گھبرا کے میں باہر آیا
جب حرم سے کوئی نکلا نہ شناسا تیرا
اس پہ کیا زور بھلا جس پہ ہو اس کا قابو
چشم شوق اپنی سہی دل تو ہے شیدا تیرا
جستجو شرط ہے مل جائے گا زینہ بھی ضرور
سامنے ہے نظر شوق کے مکھڑا تیرا
وسعت قدرت حق ہوگی نہ محدود کبھی
نہیں ملنے کا سرا زلف چلیپا تیرا
بزم آخر ہے تقاضہ نہ کر اے محفل شوق
اب کہاں صاف بھلا ساغر و صہبا تیرا
شادؔ غزلیں نہیں آیات زبور ان کو سمجھ
لحن داؤد سے کچھ کم نہیں نغما تیرا
اب جوانی کی امنگیں نہ امنگوں کی خوشی
شادؔ کو ہے فقط اے موج سہارا تیرا
غزل
کیا فقط طالب دیدار تھا موسیٰ تیرا
شاد عظیم آبادی