EN हिंदी
کیا ڈھونڈنے آئے ہو نظر میں | شیح شیری
kya DhunDne aae ho nazar mein

غزل

کیا ڈھونڈنے آئے ہو نظر میں

یوسف ظفر

;

کیا ڈھونڈنے آئے ہو نظر میں
دیکھا ہے تمہیں کو عمر بھر میں

معیار جمال و رنگ و بو تھے
وہ جب تک رہے میری چشم تر میں

اب خواب و خیال بن گئے ہو
اب دل میں رہو، رہو نظر میں

وہ رنگ تمہارے کام آیا
اڑتا ہے جو غم کی دوپہر میں

ہائے یہ طویل و سرد راتیں
اور ایک حیات مختصر میں

اب صورت حال بن گیا ہوں
ملتا ہوں نگاہ چارہ گر میں

یا اور ستارے اور شبنم
یا مر رہیں دامن سحر میں

یا منزل مہر و ماہ بھی ہے
یا راہ فرار ہے سفر میں

وہ بھی تو ظفرؔ سے خوش نہیں ہیں
رہتے ہیں جو دیدۂ ظفرؔ میں