کیا دیکھتے ہو راہ میں رک کر یہاں وہاں
ہے قتل و خوں کا ایک سا منظر یہاں وہاں
زیر نگیں اسی کے سبھی قریہ و دیار
اس کے ہی سب ہیں خیمہ و لشکر یہاں وہاں
ہے درمیان خنجر و سر فاصلے کا فرق
ورنہ سروں پہ ہے وہی خنجر یہاں وہاں
شیشے کے سب مکاں ہیں شکستہ ادھر ادھر
بکھرے پڑے ہیں شہر میں پتھر یہاں وہاں
محفوظ رہ گیا نہ کوئی راستہ نہ موڑ
جایا کرو نہ گھر سے نکل کر یہاں وہاں
لگتا ہے اب الٹنے کو ہے یہ بساط شب
سرگوشیاں یہی ہیں برابر یہاں وہاں
محسنؔ عجیب حبس کا عالم ہے اور میں
کوئی دریچہ ہے نہ کوئی در یہاں وہاں
غزل
کیا دیکھتے ہو راہ میں رک کر یہاں وہاں
محسن زیدی