کیا دیکھتے ہیں آپ جھجک کر شراب میں
پیدا ہے عکس زلف معنبر شراب میں
پرتو فگن ہے چشم فسوں گر شراب میں
کیا مل گیا ہے فتنۂ محشر شراب میں
بد مستیوں کے شوق نے طوفاں اٹھائے ہیں
بیٹھے ہیں ہم بہائے ہوئے گھر شراب میں
تر دامنوں کو آتش دوزخ سے ہے نجات
جامہ ہے شور بور سراسر شراب میں
بے یار موج مے ہے رگ جاں میں نیشتر
یہ جانستانیاں ہیں مقرر شراب میں
کچھ قتل میں بھی چاشنیٔ مے ضرور ہے
قاتل بجھا کے لائیو خنجر شراب میں
شیریں کلامیاں ہیں وہاں وقت مے کشی
گویا ملا ہے قند مکرر شراب میں
کہتا ہے رنگ رخ سے ترے جوہر شراب
کھلتے ہیں حسن شوخ کے جوہر شراب میں
محروم بزم مے سے نہ پھر جائے محتسب
دے دو کوئی کباب ڈبو کر شراب میں
رونقؔ نے ان کے ہاتھ سے بزم رقیب میں
اک خون دل پیا ہے ملا کر شراب میں
غزل
کیا دیکھتے ہیں آپ جھجک کر شراب میں
رونق ٹونکوی