EN हिंदी
کیا دور ہے کہ جو بھی سخنور ملا مجھے | شیح شیری
kya daur hai ki jo bhi suKHnawar mila mujhe

غزل

کیا دور ہے کہ جو بھی سخنور ملا مجھے

ادیب سہیل

;

کیا دور ہے کہ جو بھی سخنور ملا مجھے
گم گشتہ اپنی ذات کے اندر ملا مجھے

کس پیار سے گیا تھا تری آستیں کے پاس
شاخ حنا کی چاہ میں خنجر ملا مجھے

اس ظلمت حیات میں اک لفظ پیار کا
جب مل گیا تو ماہ منور ملا مجھے

صورت‌ گران عصر کا تھا انتظار کش
تیری رہ طلب میں جو پتھر ملا مجھے

روز ازل سے کار گہہ ہست میں سہیلؔ
دل ہی غم حیات کا محور ملا مجھے