EN हिंदी
کیا بولوں کیسی ارزانی میری تھی | شیح شیری
kya bolun kaisi arzani meri thi

غزل

کیا بولوں کیسی ارزانی میری تھی

کرشن کمار طورؔ

;

کیا بولوں کیسی ارزانی میری تھی
وہ سورج تھا اور پیشانی میری تھی

اک تصویر نہاں تھی وقت کے پردے میں
غور سے جو میں نے پہچانی میری تھی

جتنے بھی موجود تھے منظر اس کے تھے
اور آنکھوں کی سب حیرانی میری تھی

اب دیکھوں تو نا ممکن سا لگتا ہے
یہ دنیا اک دن دیوانی میری تھی

فرق ہی کیا تھا سر جاتا یا رہ جاتا
جب سچ کی فصل امکانی میری تھی

میں ہی ہوا میں انگلیوں سے لکھتا تھا
اب جتنی بھی تھی حیرانی میری تھی

کیسے کٹتی یہ زنجیر تعلق طور
جب دنیا بھر کی ویرانی میری تھی