کیا بتلاؤں کیسے دن میں کاٹ رہا ہوں
موتی ہوں اور رستے میں بے کار پڑا ہوں
لمبی لمبی کاروں والوں سے اچھا ہوں
روکھی سوکھی جو ملتی ہے کھا لیتا ہوں
تنہائی میں اکثر میں سوچا کرتا ہوں
سورج چاند ستارے کیا ہیں اور میں کیا ہوں
بادل پربت دریا چشمے جنگل صحرا
کیوں بھاتے ہیں میں ان سب کا کیا لگتا ہوں
آگ اور پانی میں کہتے ہیں بیر بڑا ہے
لیکن میں تو اس سے مل کر خوش ہوتا ہوں
اتنی نفرت یارو مجھ سے کیوں کرتے ہو
میں بھی گلشن کا اک گل ہوں تم جیسا ہوں
میرے چاہنے والوں کا بھی اک حلقہ ہے
میں بھی گلزاروں کی وادی کا جھرنا ہوں
میرے چال چلن سے بھی کچھ حاصل کر لو
میں بھی اک اوتار کا سا درجہ رکھتا ہوں
ایک ہی منظر نے آنکھوں کو ڈھانپ رکھا ہے
روز اول سے یہ سورج دیکھ رہا ہوں
خود سے جب باتیں کرنے کو جی چاہا ہے
گھر سے اٹھ کر ندی کنارے جا بیٹھا ہوں
میرے حال سے دنیا کا اندازہ کر لو
میں پھل دار شجر کا اک پیلا پتا ہوں
دھیان کو تنہائی کے گھر کا پیڑ سمجھئے
میں بھی اس کے سائے میں برسوں بیٹھا ہوں
جانے کس پل کی خوشبو ہے میرے آگے
جانے کس دنیا کے پیچھے دوڑ رہا ہوں
کیسے کیسے لوگ گزرتے ہیں نظروں سے
سارا دن میں کیسے کیسے دکھ سہتا ہوں
میرے خد و خال کو دیکھو اور پہچانو
میں بھی اپنی عرفانی کا کتبہ ہوں
بس کے پہیے خاک اڑا جاتے ہیں مجھ پر
وہ کیا جانیں کون ہوں اور کس کا چہرہ ہوں
اتا پتا کیا پوچھ رہے ہو میرا لوگو
رامپوری شاعر ہوں اور غزلیں کہتا ہوں
غزل
کیا بتلاؤں کیسے دن میں کاٹ رہا ہوں
خلیل رامپوری