EN हिंदी
کیا بتلائیں یاد نہیں کب عشق کے ہم بیمار ہوئے | شیح شیری
kya batlaen yaad nahin kab ishq ke hum bimar hue

غزل

کیا بتلائیں یاد نہیں کب عشق کے ہم بیمار ہوئے

سید نصرت زیدی

;

کیا بتلائیں یاد نہیں کب عشق کے ہم بیمار ہوئے
ایسا لگے ہے عرصہ گزرا ہم کو یہ آزار ہوئے

آپ کا شکوہ آپ سے کرنا جوئے شیر کا لانا ہے
آپ کے سامنے بولوں کیسے آپ مری سرکار ہوئے

تیر کی طرح کرنیں برسیں صبح نکلتے سورج کی
لہولہان تھا سارا چہرہ نیند سے جب بیدار ہوئے

عدل کی تو زنجیر ہلانے ہم بھی گئے دروازے تک
ہاتھ مگر زنجیر نہ آئی معتوب دربار ہوئے

جو بھی زخم لیے تھے دل پر ہم نے ان کی چاہت میں
ان سے کہہ دینا وہ سارے زخم گل و گلزار ہوئے

میرؔ کا تو احوال پڑھا ہے کیا نصرتؔ تم بھول گئے
یہ نگری ہے عشق کی نگری کیا کیا سید خوار ہوئے