کیا بتاؤں مجھے کیا لگتا ہے
ہر نفس تیر جفا لگتا ہے
ہوں وہ خوددار کسی سے کیا کہوں
سانس لینا بھی برا لگتا ہے
پھلتے دیکھی ہے کہیں شاخ ستم
میرے کہنے کا برا لگتا ہے
حادثے بھی ہیں بڑے کام کی چیز
دوست دشمن کا پتا لگتا ہے
میرا سر تو کہیں جھکتا ہی نہیں
تیرا نقش کف پا لگتا ہے
کیا کہوں حالت دل اے جرارؔ
درد کچھ اور سوا لگتا ہے

غزل
کیا بتاؤں مجھے کیا لگتا ہے
جرار چھولسی