EN हिंदी
کیا بتاؤں آج وہ مجھ سے جدا کیوں کر ہوا | شیح شیری
kya bataun aaj wo mujhse juda kyunkar hua

غزل

کیا بتاؤں آج وہ مجھ سے جدا کیوں کر ہوا

گوپال کرشن شفق

;

کیا بتاؤں آج وہ مجھ سے جدا کیوں کر ہوا
مدتوں کا آشنا نا آشنا کیوں کر ہوا

تیرے ہر نقش قدم پر جس نے سجدہ کر دیا
تیری نظروں میں بھلا وہ بے وفا کیوں کر ہوا

میری بربادی میں جس کا ہاتھ تھا وہ فتنہ گر
پوچھتا ہے اب مجھے یہ حادثہ کیوں کر ہوا

جس کے ہاتھوں نے جلایا گلستاں کا گلستاں
اس کا گھر بھی جل گیا تو پھر برا کیوں کر ہوا

آدمی تو آدمی کا تھا شریک رنج و غم
منقطع پھر آج کل یہ سلسلا کیوں کر ہوا

جس کی رحمت چند لوگوں کے لیے مخصوص ہو
ہوگا کچھ لوگوں کا وہ سب کا خدا کیوں کر ہوا

جب تری نظریں لگی ہیں کوثر و تسنیم پر
پھر بتا شیخ حرم تو پارسا کیوں کر ہوا

دار پر لٹکا دیے جاتے ہیں حق گو اے شفقؔ
حق کو حق کہنے کا تجھ کو حوصلا کیوں کر ہوا