کیا بتائیں حال دل ان کی شناسائی کے بعد
حبس بڑھتا ہی چلا جاتا ہے پروائی کے بعد
ایک مدت پر خیال ان کا کہاں سے آ گیا
کتنی اچھی انجمن لگتی ہے تنہائی کے بعد
جب نظر آیا نہ ساحل ان کی چشم ناز میں
کیا دکھائی دے گا وہ دریا کی گہرائی کے بعد
در بدر کی ٹھوکریں کھائیں محبت میں تو کیا
ہو گئے ہم محترم کچھ اور رسوائی کے بعد
ہم کہاں ہوں گے نہ جانے اس تماشا گاہ میں
کس تماشائی سے پہلے کس تماشائی کے بعد
ان کے بارے میں فقط اتنا ہمیں معلوم ہے
اب وہ رہتے ہیں ہمارے دل کی انگنائی کے بعد
خوب ہے افسرؔ ہمیں اپنی حقیقت کی خبر
کیا ہمارا نالۂ دل ان کی شہنائی کے بعد
غزل
کیا بتائیں حال دل ان کی شناسائی کے بعد
افسر ماہ پوری