کیا بیٹھ جائیں آن کے نزدیک آپ کے
بس رات کاٹنی ہے ہمیں آگ تاپ کے
کہیے تو آپ کو بھی پہن کر میں دیکھ لوں
معشوق یوں تو ہیں ہی نہیں میری ناپ کے
بجتی ہیں شہر شہر مرے دل کی دھڑکنیں
چرچے ہیں دور دور اسی ڈھولک کی تھاپ کے
اک رات آپ جسم خدا بن کے آئیے
اور ہم گناہ گار ہوں پہلو میں آپ کے
احساسؔ جی پہ ایسا چڑھا عاشقی کا رنگ
سب داغ مٹ گئے ہیں تلک اور چھاپ کے
غزل
کیا بیٹھ جائیں آن کے نزدیک آپ کے
فرحت احساس