EN हिंदी
کیا بات تھی کہ اس کو سنورنے نہیں دیا | شیح شیری
kya baat thi ki usko sanwarne nahin diya

غزل

کیا بات تھی کہ اس کو سنورنے نہیں دیا

فاطمہ وصیہ جائسی

;

کیا بات تھی کہ اس کو سنورنے نہیں دیا
آئینہ ہاتھ میں تھا نکھرنے نہیں دیا

طوفان میں پھنسے تو کنارے تک آ گئے
ساحل نے ان کو پھر بھی ابھرنے نہیں دیا

اس دور پر فتن میں سلیقے سے ٹوٹ کر
ٹوٹے تو روز ہی پہ بکھرنے نہیں دیا

ہم نے امیر شہر کو سجدہ نہیں کیا
خودداریٔ مزاج نے گرنے نہیں دیا

رد و قدح کے بعد وصیہؔ نے آج بھی
معیار سے غزل کو اترنے نہیں دیا