کیا بات تھی کہ اس کو سنورنے نہیں دیا
آئینہ ہاتھ میں تھا نکھرنے نہیں دیا
طوفان میں پھنسے تو کنارے تک آ گئے
ساحل نے ان کو پھر بھی ابھرنے نہیں دیا
اس دور پر فتن میں سلیقے سے ٹوٹ کر
ٹوٹے تو روز ہی پہ بکھرنے نہیں دیا
ہم نے امیر شہر کو سجدہ نہیں کیا
خودداریٔ مزاج نے گرنے نہیں دیا
رد و قدح کے بعد وصیہؔ نے آج بھی
معیار سے غزل کو اترنے نہیں دیا
غزل
کیا بات تھی کہ اس کو سنورنے نہیں دیا
فاطمہ وصیہ جائسی