EN हिंदी
کیا بات تھی کہ جو بھی سنا ان سنا ہوا | شیح شیری
kya baat thi ki jo bhi suna an-suna hua

غزل

کیا بات تھی کہ جو بھی سنا ان سنا ہوا

راج نرائن راز

;

کیا بات تھی کہ جو بھی سنا ان سنا ہوا
دل کے نگر میں شور تھا کیسا مچا ہوا

تم چھپ گئے تھے جسم کی دیوار سے پرے
اک شخص پھر رہا تھا تمہیں ڈھونڈتا ہوا

اک سایہ کل ملا تھا ترے گھر کے آس پاس
حیران کھویا کھویا سا کچھ سوچتا ہوا

شاید ہوائے تازہ کبھی آئے اس طرف
رکھا ہے میں نے گھر کا دریچہ کھلا ہوا

بھٹکا ہوا خیال ہوں وادی میں ذہن کی
الفاظ کے نگر کا پتہ پوچھتا ہوا

چاہا تھا میں نے جب بھی حدوں کو پھلانگنا
دیکھا تھا آگے آگے افق دوڑتا ہوا

چھٹکی ہوئی تھی چاندنی یادوں کی شب کو رازؔ
آنگن مرے خیال کا تھا چونکتا ہوا