EN हिंदी
کیا بات نرالی ہے مجھ میں کس فن میں آخر یکتا ہوں | شیح شیری
kya baat nirali hai mujh mein kis fan mein aaKHir yakta hun

غزل

کیا بات نرالی ہے مجھ میں کس فن میں آخر یکتا ہوں

اطہر نفیس

;

کیا بات نرالی ہے مجھ میں کس فن میں آخر یکتا ہوں
کیوں میرے لیے تم کڑھتے ہو میں ایسا کون انوکھا ہوں

وہ لمحہ یاد کرو جب تم اس قلب سرا میں آئے تھے
اس روز سے اپنا حال ہے یہ کبھی ہنستا ہوں کبھی روتا ہوں

کچھ بھولی بسری یادوں کا البیلا شہر بسایا ہے
کوئی وقت ملے تو آ نکلو یہیں ملتا ہوں یہیں رہتا ہوں

کچھ اور بڑھے اس رستے میں انفاس‌ رفاقت کی خوشبو
تم ساتھ سہی ہم راہ سہی میں پھر بھی تنہا تنہا ہوں

میں خاک بسر میں عرش نشیں میں سب کچھ ہوں میں کچھ بھی نہیں
میں تیرے گماں سے پتھر ہوں میں تیرے یقیں سے ہیرا ہوں